"AGE IS JUST A NUMBER"

خود بھی جوان رہیں اور اپنے پارٹنر کو بھی بوڑھا مت ہونے دیں۔ ہم نے عمر اور ظاہری حالت کو اندرونی کیفیات کے ساتھ منسلک کر دیا ہے۔ انسان کی اداسی اور خوشی کا تعلق اس کے اندر موجود شخص سے ہے۔ یہ اندر بیٹھا شخص در اصل بچہ بن کر رہنا چاہتا ہے۔ کچھ شرارتیں، کچھ الٹا سیدھا جیسے ہنسی مذاق، کھلکھلا کر مسکرانا، کبھی جوکر کی مانند اچھل کود کرنا, کبھی بچوں جیسی گفتگو کرنا، کبھی یہاں وہاں کی بے ترتیب سی باتیں کرنا تو کبھی ڈنڈی والے گلاب 🌹 کو ہاتھ میں تھام کر انتظار کی سولی پر لٹکا رہنے کی خواہش کرتا ہے۔

Motivation Synonym "AGE IS JUST A NUMBER"

ہمیں لگتا ہے کسی کے بال سفید ہو جانا، کسی کی عمر زیادہ ہو جانا، کسی کا مزہبی ہونا یا عالم بن جانا اس کے میچور ہونے کی علامت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دین کا علم رکھنے والا بس ریموٹ کنٹرول مشین بن کر رہے، چالیسواں سال شروع ہو تو مسکراہٹ دھیمی ہونی چاہیے، ہم لوگوں کی عمر کے مطابق ان کے جذبات واحساسات پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس کے بعد ہمیں لگتا ہے کہ اندرونی کیفیات بھی بدل گئی ہیں۔

جب کہ جوانی، بچپن یا بڑھاپا اندرونی کیفیات ہیں۔۔ عمر نہیں بلکہ سوچ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کون جواں ہے، کون بچہ اور کون بوڑھا ہے؟

ریسرچ کے مطابق بڑھاپے کا تعلق کسی کی عمر یا تاریخ پیدائش سے نہیں بلکہ" سٹیٹ آف مائنڈ" سے ہے۔ ہم کسی کی عمر دیکھ کر فیصلہ کر لیتے ہیں کہ وہ جذبات واحساسات کی عمر گزار چکا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسی سال کی عمر میں بھی انسان جزباتی طور پر جوان رہتا ہے، البتہ ارد گرد کے ماحول کی وجہ سے دن بہ دن وہ خود کو ختم ہوتا محسوس کرتا ہے۔۔ نتیجتاً بڑھاپا نہیں بلکہ بوڑھی سوچ اس پر غالب آ جاتی ہے اور جب بوڑھی سوچ غالب آ جائے تو انسان کی جوانی بھی بڑھاپے والی قبر میں دفن ہو کر رہ جاتی ہے۔

 میں نے کئی بزرگوں کو نوٹ کیا ہے۔ ایک ستر سالہ بابا جی کسی دکان کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ ہر آنے جانے والوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، ہنسی مذاق کرتے رہنا ان کی عادت ہے۔ کوئی ان بابا جی کو بوڑھا کہہ دے، " عمر دیکھی ہے اپنی؟" یہ جملہ کہہ دیں تو ان کی طرف سے جواب ہوتا ہے۔ " بوڑھا ہوگا تیرا باپ، تیری ایسی کی تیسی، میں نے ابھی دیکھا ہی کیا ہے؟ " وغیرہ وغیرہ۔ دکان پر آنے والے بچوں کی چیزیں چھین کر تنگ کرنا، اوپر نیچے لہراتے رہنا اور پھر بچوں کے ماتھے پر پیار کر کے واپس کر دینا۔ کوئی ہم عمر بزرگ سامنے سے گزرے تو کہنا" ابے سالے کمر جھک گئی ابھی سے؟ چھوٹا ہے تو مجھ سے۔ منہ پر مسکراہٹ نہ ہو تو تیرے جیسا حال ہو جاتا ہے۔۔ ایک ہفتہ میرے پاس بیٹھ تو جوان ہو جائے گا کمینے۔۔ اور دوسرے بزرگ ہنستے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ وہ شاید اسے پاگل سمجھتے ہیں جب کہ میری نظر میں یہ پاگل خوب جی رہا ہے۔ جیسے انسانی نفسیات کو مکمل جانتا ہے۔ وہ جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے۔۔

ایک اور بزرگ میری توجہ کا مرکز ہیں۔ وہ میاں بیوی آج بھی یوں رہتے ہیں جیسے کل ہی پسند کی شادی ہوئی ہو۔ ستر سالہ یہ جوڑا اٹھارہ سالہ احساسات سے لبریز ہے۔ بابا جی کی عادت ہے گھر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اپنی بیگم کو تلاش کرتے ہیں۔ہاتھ ملانے کے بعد اپنی بیوی کا ماتھا چومتے ہیں۔ چاہے گھر کا صحن بچوں سے بھرا پڑا ہو۔ سنا ہے ان کی یہ عادت شادی کے شروع دن سے ہے۔ ستر سالہ ان کی بیوی آج بھی رنگ رنگ کی چوڑیاں پہن کر بیٹھی رہتی ہیں۔ ہاتھوں پر مہندی لگوانے کی عادی ہیں۔ جھمکے، کانٹے پہن کر رکھتی ہیں۔ بیمار ہو جائیں تو ایک دوسرے کی تیمار داری کیلئے ہاتھ چوم کر ماتھے پر بوسہ لیتے ہیں۔ حق ہے بھئی۔ اولاد جوان ہو گئی تو کیا ہوا؟ محرم ہیں۔ کوئی گناہ نہیں کرتے۔۔۔

خاندان کے کچھ لوگوں کو ان کی عادات سخت نا پسند ہیں تو کچھ لوگوں کیلئے یہ" آئیڈیل کپل" ہے۔ سوچ سوچ کی بات ہے ساری۔۔ جن لوگوں کی سوچ بیمار اور بوڑھی ہے وہ اعتراض کرتے ہیں جن کی سوچ جوان اور تندرست ہے وہ انسپائر ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے خاندان میں ایک کپل تھا۔ وہ میاں بیوی مل کر محفل لگائے رکھتے تھے۔ ہر شادی میں دونوں مل کر ڈانس کرتے تھے۔ ہم سب فرمائشیں کرتے کہ آپ آج بھی اپنی بیگم کو سب کے سامنے آئی لو یو کہہ سکتے ہیں؟ وہ کہتے لو جی بالکل کہہ سکتا ہوں۔ بیگم ہے میری۔۔ یہ پچاس سال کے بعد بھی اظہار محبت کثرت سے کرتے تھے۔ اپنے آخری دنوں میں دونوں میاں بیوی بیمار ہوئے مگر بھرپور جی کر موت کو گلے لگایا۔ پہلے انکل وفات پا گئے تو دس دن بعد ان کی زوجہ۔ سب نے کہا" ایسا بہترین جوڑا بھلے اکیلا رہ بھی کیسے سکتا تھا؟"

میرے والد صاحب سارا دن میری والدہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ جان بوجھ کر کوئی ایسی بات کرنا کہ امی جذباتی ہو جائیں اور پھر چپ چاپ سنتے رہیں گے۔ صبح دونوں نماز کے وقت جاگنے کے عادی ہیں۔ نماز کے بعد مارننگ واک پر دونوں ساتھ جاتے ہیں۔ واپس آ کر مل جل کر ناشتہ تیار کرتے ہیں۔ صبح دونوں کا وقت کچن میں ایک ساتھ گزرتا ہے۔ امی پراٹھے بناتی ہیں تو ابو پیاز ٹماٹر کاٹ شاٹ کر سالن یا چنے وغیرہ جو بنانا ہو وہ تیار کر دیتے ہیں۔۔

ابو کی عادت ہے روزانہ شیو کرنا۔۔ بالوں کو کلر کرنا۔میرے  ابو کی نظر میری امی کے بالوں پر ٹکی رہتی ہے۔ دو بال سفید نظر آ جائیں تو کلر تیار کر کے بیٹھ جائیں گے اور تب تک آوازیں بلند رکھیں گے جب تک میری والدہ آ کر بیٹھ نہ جائیں۔ پھر ان کے بالوں کو کلر کرتے ہیں۔ سارا دن اپنے پوتا پوتی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ۔ بچوں کی کیپ چھین کر خود پہن لینا وغیرہ وغیرہ۔ دیکھنے والے مانتے ہی نہیں کہ یہ ہمارے ابو اور امی ہیں۔ ماشاءاللہ 🌹❤️❤️ ۔۔ لڑائیاں بھی خوب ہوتی ہیں لیکن مجال ہے جو ایک دن بھی ایسے گزر جائے۔۔ کچھ منٹوں بعد ویسے کے ویسے۔۔۔

تو۔۔۔۔۔

                                                "AGE IS SIMPLY A NUMBER”.

جو پسند ہے وہ کریں، مسکراتے رہیں۔

ہر وقت سنجیدہ رہنا درست نہیں، یوں آپ کے اندر کا بچہ افسردہ ہو جائے گا۔۔